نماز کے اسرار و رموز

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد


پیش لفظ

نماز دین کا ستون ہے، جنت کی کنجی ہے، نماز مومن کی معراج ہے اور بندے کیلئے پروردگار سے ہمکلامی کا ذریعہ ہے۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا لا صلوٰۃ الا بحضور القلب (دل کی توجہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) آج کے پر فتن مشینی دور میں انسان ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پریشانیوں نے اسے خوب پریشان کر رکھا ہے۔ اسے سارا جہان مسائلستان نظر آتا ہے۔ حالت یہ ہو گئ ہےکہ کھڑا نماز کی حالت میں ہوتا ہے مگر گھریلو پریشانیوں کی گتھیاں سلجھا رہا ہوتا ہے کبھی کاروباری معاملات میں ڈوبا ہوتا ہے اور کبھی نفسانی شیطانی شہوانی تقاضوں کے دریا میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے نماز کی رکعتیں بھول جانا۔ التحیات میں سورۃ فاتحہ پڑھنا اور قیام میں سورۃ بھول جانا عام سی بیمای بن گئ ہے۔ حدیث پاک میں قرب قیامت کی ایک نشانی یہ بھی بتائی گئ ہے کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہو گی مگر ان کے دل اللہ کی یاد سے خالی ہوں گے۔ ایک مسجد میں امام صاحب کو نماز کی رکعتوں میں مغالطہ لگا، سلام پھیر کر مقتدی حضرات سے پوچھا کہ میں نے پوری رکعتیں پڑھی ہیں یا کم پڑھی ہیں۔ پوری مسجد میں ایک بھی نمازی ایسا نہ تھا جو یقین محکم اور صمیم قلب سے کہتا کہ ہم نے اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح کی نمازوں کے متعلق حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ وہ نمازی کے منہ پر واپس مار دی جاتی ہیں۔ کتنے غم کی بات ہے کہ ایک شخص نے وقت بھی فارغ کیا۔ نماز بھی پڑھی مگر اٹھک بیٹھک کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مسجد میں نماز تو سب پڑھتے ہیں مگر ہر شخص کو اس کے خشوع و خضوع کے مطابق اجر ملتا ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ایک من سونا ہو، لوہا ہو یا مٹی ہو، وزن میں تو سب برابر مگر قیمت سب کی اپنی اپنی۔ اللہ والوں کی نماز پر اگر سونے کا بھاؤ لگتا ہے تو عام صالحین کی نما ز پر لوہے کا بھاؤ لگتا ہے جبکہ غافلین کی نماز کو مٹی کے بھاؤ بھی قبول نہیں کرتے۔ بقول شاعر

بز   میں   چوں     سجدہ    کر   دم   ز   زمیں      ندا         برآمد
کہ مرا خراب کر د ی تو بسجدہ ریائی

(جب میں نے زمین پر سجدہ کیا تو زمین سے آواز آئی، او ریا ء کے سجدہ کرنے والے! تو نے مجھے بھی خراب کر ڈالا)

علامہ اقبال نے خوب کہا ہے۔

میں    جو    سر   بسجدہ    ہوا   کبھی   تو     زمیں      سے      آنے      لگی     صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار عاشق نامراد تو فانی چیزوں کے عشق میں اس حد تک گرفتار ہو جاتا ہے کہ ہر وقت انہیں کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے اور انکے حصول کی تمنا دل میں لئے نہ جانے کیا کیا منصوبے بناتا رہتا ہے۔ وہ اپنے مطلوب کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے اور کبھی اپنی جان مال اور عزت و ناموس تک برباد کر لیتا ہے۔ اور ہم کیسے اللہ تعالٰی کے نام لیوا اور عاشق صادق ہیں کہ عین نماز میں جب کہ ہم انکی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اس وقت بھی انکی یاد دل میں نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ ہم اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔اسی لئے ہماری نمازیں بے روح و بے لذت ہیں۔بقول شاعر

عشق  اگر   ترا  نہ   ہو   میری  نماز   کا   امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

جن سلف صالحین نے نماز کی حضوری حاصل کرنے کیلئے محنت کی انہیں اسی دنیا میں اپنی مراد مل گئ۔ چنانچہ شیخ عبدالواحد کے سامنے تذکرہ ہوا کہ جنت میں نماز نہیں ہو گی تو رو پڑے۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت کیوں روئے۔ فرمایا اگر جنت میں نماز نہیں ہوگی تو پھر جنت کا مزہ کیسے آئے گا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے سامنے کسی نے جنت کے حوروقصور کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ بھئی اگر قیامت کے دن مجھ پر اللہ تعالٰی کی نظر رحمت ہو گئ تو میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ۔ اپنے عرش کے نیچے مصلٰے کی جگہ عنایت فرما دیجئے۔

حضرت مولانا یححٰی کاندھلویؒ لمبا سجدہ کرتے تھے کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ جب میں سجدے میں ہوتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنا سر محبوب کے قدموں پر رکھ دیا ہے۔ بس پھر سر اٹھانے کو دل ہی نہیں چاہتا

مجھے کیا خبر تھی رکوع  کی مجھے کیا  خبر  تھی   سجود  کی
تیرے نقش پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں

امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے اپنے مکاتیب میں لکھا ہے۔

جان لیں کہ دنیا میں نماز کا مرتبہ آخرت میں رویت باری تعالٰی کے مرتبہ کی مانند ہے" پس جو شخص دنیا میں بغیر وساوس کے نماز ادا کرے گا اسے جنت میں اللہ تعالٰی کا دیدار بغیر حجاب کے ہو گا۔ اور اگر وساوس کے ساتھ نماز پڑھے گا تو آخرت میں دیدار بھی پردوں کے اندر سے ہو گا۔"

کس قدر حسرت کی بات ہے کہ نماز پر محنت نہ کرنے کی وجہ سےنمازی کو دیدار خداوندی نصیب ہو گا مگر پردوں کے ساتھ۔ اے کاش ۔۔۔۔ ہم اپنی نمازوں پر محنت کرتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا سیکھتے تو روز محشر جمال بے نقاب کے دیدار کے مزے پاتے۔

خاص طور پر سالکین طریقت کے تمام تر ذکر و سلوک اور اوراد و وظائف کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح ذات الٰہی کی رضا اسکی لقا اور اس کا مشاہدہ نصیب ہو جائے۔ اگر یہ بھی نماز جیسی عظیم الشان عبادت جو کہ اللہ جل شانہ کے مشاہدے کا مقام ہے سے غافل ہو جائیں تو یہ اپنی منزل آپ کھو دینے کے مترادف ہے۔ فقیر جب ایک طرف نماز کی اس اہمیت کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف نماز کی ادائیگی کےمعاملے میں دوستوں کے احوال کو دیکھتا ہے دل میں شدت سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ سالکین کو بالخصوص اور عامۃ الناس کو بالعموم اس بارے میں فکر مند کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بہت سے نمازی ایسےہیں کہ انکو نماز کی اہمیت و عظمت کا احساس ہی نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو حضور قلب کی نعمت سےمحرورم ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو ارکان نماز کی صحت سے غافل ہیں اور بہت سے ہیں جو ارکان نماز کی درستگی کی تو پوری کوشش کرتے ہیں لیکن طہارت کا معاملہ ڈھیلا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز شرف قبولیت سے محروم رہتی ہے۔ فقیر نےاس کتاب میں کوشش کی ہے کہ ان تمام پہلوؤں سے طالبین کی رہنمائی کی جائے۔ تاکہ وہ کامل نماز ادا کرنے والے بن جائیں۔

دادیم          ترا   ز        گنج        مقصود         نشان
گر ما نہ رسیدیم تو شاید برسی
ہم نے تمہیں گنج مقصود کی نشاندہی کر دی ہے کہ ہم نہ پہنچے تو شاید تو ہی پہنچ جائے)

قارئین کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ یہ کتاب کو ئی مسائل کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق نماز کے باطنی امور سے ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ نماز کے فقہی مسائل، فقہ کی معروف کتب سے یا مقامی علماء سےسیکھ کر عمل کریں تاکہ ظاہر و باطن ہر دو لحاظ سے نماز کی تکمیل ہو سکے۔

نبی علیہ السلام نے نماز کی ظاہری حالت کو درست کرنے سے متعلق فرمایا:

صلوا کما را یتمونی اصلی
(ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)

نماز کی باطنی کیفیت درست کرنے سے متعلق فرمایا:

ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک
(تو اللہ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو یہ سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے)

معلوم ہوا کہ ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے نماز کی درستگی ضروری ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقت والی نمازیں پڑھنے کی توفیق عطا فرما دے، وہ ہماری نمازوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اور اللہ تعالٰی سے ہمکلامی کا ذریعہ بنا دے اور دیدار جمال یار تک پہنچا دے۔ آمین ثم آمین واللہ الموفق۔

دعاگو و دعا جو
فقیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی
کان اللہ لہ عوضا عن کل شیء