ارشاد باری تعالٰی ہے۔
یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)
(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنےچہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)
ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ (وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنےدشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذیعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتےتھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔
حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ (تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالٰی اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔
ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سےتعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی باوضو گزارو۔ ہمارے گھر کاچھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپکو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فورًا نیا وضو کر لیتے ہیں۔
حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھےکہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا 'فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارےسامنے رکھا گیا ہے۔ اسکی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کےساتھ، پھر جب اسکو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اسکو کاٹا گیا وضو کےساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کےساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اسکی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپکے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ،کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔
حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نےلگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نےسپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کرگیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالٰی کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔
شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا 'حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی'۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔
فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کےمشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر مجھے امت پر بوجھ کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنا فرض قرار دے دیتا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو نماز مسواک کے ساتھ وضو کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز سے ستر گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے جو بغیر مسواک کے پڑھی جائے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ مسواک کے اہتمام میں ستر فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ نصیب ہوتا ہے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ مسواک کا اہتمام کرو اس میں دس فائدے ہیں۔
علامہ شامیؒ نے رد المختار میں مختصرًا مسواک کرنے کے مواقع کو تحریر فرمایا ہے جو درج ذیل ہیں۔
حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے کہ تین چیزیں حافظہ کو قوی کرتی ہیں۔
درج ذیل میں وضو سے متعلق چند اسرار و رموز بیان کئے جاتےہیں۔
وضو میں پہلے ہاتھ دھوتے ہیں، کلی کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں پھر چہرہ دھونے کی باری آتی ہے۔ اب ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کا درجہ سنت سے زیادہ ہے تو پھر پہلے چہرہ دھلواتے بعد میں دوسرے کام کرواتے۔ مگر وضو میں سنت عمل کو فرض عمل پر مقدم کیا گیا۔ آخر اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب:
پانی سے اس وقت وضو کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی پاک ہو۔ اگر پانی ہی ناپاک ہو تو وضو ہو گا ہی نہیں۔ پانی کی پاکیزگی کا اندازہ اس کی رنگت ، بو اور ذائقہ سے لگایا جاتا ہے۔ وضو کرنے ولا آدمی جب ہاتھ دھوئے گا تو اسکو پانی کی رنگت کا پتہ چل جائے گا، جب کلی کرے گا تو ذائقے کا پتہ چل جائے گا، جب ناک میں پانی ڈالے گا تو بو کا پتہ چل جائے گا۔ جب تینوں طرح سے پاکیزگی کا پتہ چل گیا تو شریعت نے چہرہ دھونے کا حکم دیا تاکہ فرض کامل صورت میں ادا ہو جائے۔
وضو کے اعضاء متعین کرنے میں کیا خصوصیت ہے؟
جواب:
حضرت آدمؑ سے شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی بھول ہوئی، وضو کے ذریعے اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ تاکہ انسان اپنی تمام غطیوں سے معافی مانگ سکے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے ہاتھوں سےشجر ممنوعہ کا پھل توڑا، آنکھوں سے دیکھا، منہ سے کھایا، پتوں کو سر لگا، پاؤں سے اسکی طرف چل کر گئے۔ وضو کرتے وقت اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ۔ تاکہ انسان اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ سبق بھی دیا گیا کہ اگر میرے حکموں کے مطابق زندگی گزارو گے تو نعمتوں میں پلتے رہو گے، جنت میں جا سکو گے، اور اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو نعمتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے، جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
وضو میں ہاتھ دھونے سےابتداء کیوں کی گئ؟
جواب:
تاکہ موت کے وقت مال سےہاتھ دھونے پڑیں گے تو دل کو رنج نہ ہو۔ مزید برآں انسان کے ہاتھ ہی سب سے زیادہ مختلف جگہوں یا چیزوں سے لگتے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہاتھوں پر مختلف بیکٹیریا اور جراثیم لگے ہوئے ہوں۔ ہاتھ پہلے دھونے سے وہ گندگی دور ہو جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دوسرے اعضاء کو ہاتھوں ہی کی مدد سے دھوتا ہے اگر ہاتھ ہی پاک نہ ہوں تو دوسرے اعضاء کیسے پاک ہوں گے۔ اس لئے وضو میں ہاتھ پہلے دھلوائے گئے باقی اعضاء کو بعد میں دھلوایا گیا۔
وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟
جواب:
وضو میں چار فرض ہیں۔ دو اعضاء ذرائع علم میں ہیں مثلًا سر اور چہرہ، جبکہ دو اعضاء ذرائع عمل میں سےہیں مثلًا ہاتھ اور پاؤں۔ ان چاروں کو دھونا فرض قرار دیا گیا۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام سعادتوں کی بنیاد علم پر عمل کرنے میں ہے۔
تیمم میں دو فرض کیوں ہیں؟
جواب:
تیمم اس وقت کرتےہیں جب پانی موجود نہ ہو یا بیماری کا عذر ہو۔ پس عذر کی حالت میں عمل میں تخفیف کی گئ، انسان پربوجھ کم کردیا گیا، رخصت مل گئ، عمل کرنے میں آسانی ہو گئ۔ رہی بات یہ کہ چار میں سےکون سے دو چنے گئے۔ تو ایک عضو ذرائع علم میں سےچنا گیا مثلاً چہرہ اور سر میں چہرےکو منتخب کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ سر کا تو پہلے ہی چوتھائی حصہ کا مسح کرتےہیں جبکہ چہرہ کامل دھلوایا جاتا ہے۔ پس کامل کو ترجیح دی گئ البتہ ذرائع عمل میں سےہاتھ اور پاؤں میں سے ہاتھوں کو چنا گیا۔ چونکہ ہاتھ پاؤں سے اعلٰی ہیں۔ شریعت نے کامل اور اعلٰی اعضاء کو چن لیا۔ بقیہ کا بوجھ کم کر دیا۔ علمی نکتہ ۶: تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
جواب:
وضو میں پہلے ہی چوتھائی سر کا مسح کیاجاتا ہے۔ جب معافی دینی تھی تو پورےسر کا مسح معاف کر دیا گیا۔ ویسےبھی جہلا کی عادت ہوتی ہے کہ مصیبت کےوقت سر پر مٹی ڈالتےہیں تو تیمم میں سر کا مسح معاف کردیا گیا تاکہ جہلا کےعمل سے مشابہت نہ ہو۔
تیمم میں ہاتھ اور چہرے کو دوسرے اعضاء پر مقدم کیوں کیا گیا؟
جواب:
انسان اکثر گناہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے کتا ہے۔اس لئے انکا انتخاب ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دو اعضاء پرخوف زیادہ ہو گا ۔ ایک چہرے پر کہ گنہگاروں کےچہرے سیاہ ہوں گے۔
یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْ ہٌ وَّ تَسْوَ دُّ وُجُوْ ہٌ (آل عمران:۱۰۶)
(جس دن سفید ہوں گے بعض چہرے اور سیاہ ہوں گے بعض چہرے)
کفار کےچہرے کالے اور مٹی آلود ہوں گے۔
وُجُوْ ہٌ یَّوْ مَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَ ہٌ ۔ تَرْ ھَقُھَا قَتَرَ ۃٌ ۔ اُو لٰئِکَ ھُمُ الْکَفَرَ ۃُ الْفَجَرَۃ (عبس ۳۰، ۳۱، ۳۲)
(اور کتنے منہ اس دن گرد آلود ہوں گے۔ چڑھی آتی ہے ان پر سیاہی۔ یہ لوگ وہی ہیں جو منکر اور ڈھیٹ ہیں)
دوسرا پل صراط سے گزرتے ہوئےبعض لوگوں کے پاؤں کانپ رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔
وَ اِنَّ مِنْکُمْ اِلَّا وَا رِ دُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیِّاً ۔ ثُمَّ نُنِجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا (مریم: ۷۱)
(اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔ تیرے رب پر یہ وعدہ لازم اور مقرر ہو چکا۔ بچائیں گے ہم انکو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے ہوئے۔
دن میں پانچ بار وضو کرنے میں سائنسی نقطہ نظر سے بہت زیادہ جسمانی فوائد ہیں۔ درج ذیل میں انکی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
کام کاج کےدوران انسان کے ہاتھ بعض ایسی اشیاء پر لگتے ہیں جن پر بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم لگے ہوتے ہیں۔ وہ جراثیم ہاتھوں سے چمٹ جاتے ہیں جب انسان کے ہاتھ اپنے جسم کے مختلف حصوں سے لگتےہیں تو وہ جراثیم وہاں منتقل ہو جاتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے پھیلنے کا باعث بنتے ہیں۔ نمازی انسان دن میں کم از کم پانچ مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے لہذا اسکے ہاتھ صاف ستھرے رہتے ہیں۔ بہت سی بیماریوں سے خود بخود بچاؤ ہو جاتا ہے۔
انسان جب کوئی چیز کھاتا ہے تو دانتوں کی درمیانی جگہوں میں اسکے اجزاء پھنس جاتے ہیں۔ اگر منہ کو اچھی طرح صاف نہ کیا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اجزاء گل سڑ جاتے ہیں۔ منہ سے بدبو آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر دوبارہ کھانا کھایا جائے تو یہ گندے اجزاء کھانے کے ساتھ ملکر معدے میں پہنچ جاتےہیں اور پیٹ کی بیماریوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ وضو کرنے والا انسان دن میں پانچ مرتبہ اپنے منہ کو اچھی طرح صاف کرتا ہے لہذا دانتوں کی اور آنتوں کی بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔
انسان کے پھیپھڑوں میں ہوا کا جانا اور آکسیجن کا جسم کو مہیا ہونا انسانی زندگی کا سبب ہے۔ ہوا میں مختلف جراثیم اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہوتے ہیں اللہ نے انسان کے ناک میں بال اگا کر ائر فلٹر بنا دیا تاکہ صاف ہوا جسم کو ملے۔ جس طرح گاڑیوں کے ائر فلٹر کچھ عرصے بعد چوک ہو جاتے ہیں انکو صاف کرنا پڑتا ہے اسی طرح انسان کی ناک میں مختلف جراثیم اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ ناک کو بار بار صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی بھی انسان اپنے ناک میں دن میں ایک دو مرتبہ سے زیادہ پانی ڈال کر صاف نہیں کرتا ہو گا مگر ایک مسلمان نمازی دن میں پانچ مرتبہ اپنے ناک کی پانی سے صفائی کرتا ہے۔
وضو کے دوران چہرے کا دھونا فرض ہے۔ جب چہرہ دھویا جاتا ہے تو اسکی جلد صاف ہو جاتی ہے، مسام کھل جاتے ہیں تروتازگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مزید برآں چہرہ دھوتے وقت آنکھوں میں پانی کا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ آنکھوں کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دن میں چند بار آنکھوں میں تازہ پانی کے چھینٹے مارے جائیں تو آنکھیں کئ بیماریوں سے محفوظ ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت جب کہ ہوا میں اوزون (۰۳) کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے پانی کے چھینٹے آنکھوں میں مارنے سے انسان موتیا بند کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔
انسانی دماغ سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی رگیں (نروز) پورے جسم میں پھیل جاتی ہیں اور مختلف اعضاء کو سگنل پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ یہ سب رگیں دماغ سے نکل کر گردن کے پیچھے سے ہوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے جسم کی مختلف جگہوں سے ملی ہوتی ہیں۔ گردن کے پیچھے کا حصہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اس حصے کو خشک رکھا جائے تو رگیں کھنچے کی وجہ سے انسان کے دماغ پر اسکا اثر پڑتا ہے۔ کئی لوگ تو دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر لوگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ وہ گردن کے پچھلے حصے کو وقتًا فوقتًا تر کرتے رہیں۔ نمازی آدمی جب وضو کرتا ہے تو اسے یہ نعمت خود بخود مل جاتی ہے۔
ایک شخص فرانس کے ائر پورٹ پر وضو کر رہا تھا تھا اس سے کسی نے پوچھا کہ آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں اس نے کہا پاکستان سے۔ سائل نے پوچھا کہ پاکستان میں کتنے پاگل خانے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے تعداد کا پتہ نہیں ویسے چند ایک ہی ہوں گے۔ سائل نے اپنا تعارف کروایا کہ میں یہاں کے ایک پاگل خانے کے ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ میری پوری عمر اس تحقیق میں گزری ہے کہ لوگ پاگل کیوں ہوتے ہیں؟ میری تحقیق کے مطابق جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی گردن کے پچھلے حصے کو خشک رکھتے ہیں۔ کچھاؤ کی وجہ سے رگوں پر اسکا اثر ہوتا ہے۔ جو لوگ اس جگہ کو وقتًا فوقتًا نمی پہنچاتے رہیں وہ پاگل ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے ہاتھ پاؤں دھونے کے ساتھ ساتھ گردن کے پیچھے کے حصے پر بھی گیلے ہاتھ پھیرے۔ نمازی نے بتایا کہ وضو کرتے وقت گردن کا مسح کیا جاتا ہے اور ہر نمازی دن میں پانچ مرتبہ گردن کا مسح کرتا ہے۔ ڈاکٹر کہنے لگا کہ اسی لئے آپ کے ملک میں لوگ کم تعداد میں پاگل ہوتے ہیں۔ اللہ اکبر۔ ایک ڈاکٹر کی پوری زندگی کی تحقیق نبی عیلیہ السلام کے بتائے ہوئے ایک چھوٹے سے عمل پر آ کر ختم ہو گئ۔
انسانی جسم میں بعض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جن کا اثر پاؤں پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً شوگر کے مریض کے پاؤں پر زخم بھی ہو جائیں تو اسے پتہ نہیں چلتا۔ ڈاکٹر لوگ شوگر کے مریض کو سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنے پاؤں کو صاف رکھے۔ دن میں چند مرتبہ اسے غور سے دیکھے کہ کہیں کوئی زخم وغیرہ تو نہیں۔ اچھی طرح پاؤں کا مساج کرے تاکہ خون کی شریانوں میں اگر کہیں رکاوٹ ہے تو وہ دور ہو جائے۔ نمازی آدمی دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتا ہے تو یہ سب کام خود بخود ہو جاتے ہیں۔ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان فنگس کی وجہ سے زخم ہو جاتے ہیں۔ وضو کرنے والا انگلیوں کے درمیان خلال کرتا ہے تو اسے صورتحال کا پتہ چل جاتا ہے ۔ پاؤں زمین کے قریب ہونے کی وجہ سے بہت جلد جراثیم کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ انہیں صاف رکھنا اور متعدد بار دھونا بہت ضروری ہے۔ یہ نعمت نمازی کو وضو کے دوران نصیب ہو جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ہم خرما و ہم ثواب کہ وضو کرنے سے گناہ بھی جھڑ گئے اور جسمانی بیماریوں سے بھی نجات مل گئ۔
وضو کے ان فضائل، معارف اور فوائد و ثمرات کو دیکھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ اللہ رب العزت نے وضو کا حکم فرما کر ہمارے اوپر کس قدر احسان فرمایا۔