نماز کے اسرار و رموز

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد


مساجد سے محبت

ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا۔
(یہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں نہ تم پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو۔ الجن ۱۸)
مساجد ان جگہوں کو کہا جاتا ہے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ مساجد بیت اللہ شریف کی شاخیں ہیں۔ قیامت کے دن تمام مساجد کو بیت اللہ شریف کے ساتھ ملا کر جنت کا حصہ بنا دیا جائیگا۔ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہوتی ہے۔ اس پر خرچ کرنا، اسے پاک صاف رکھنا اس میں عبادت کرنا اور اس سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے کی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ
(بے شک وہی آباد کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مسجدیں جو اللہ پر یقین رکھتا ہے۔ التوبہ۱۸)

  • حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مسجد سے الفت رکھے اللہ تعالیٰ اس سے الفت رکھتے ہیں۔ (جامع الصغیر)
    انسانی فطرت ہے کہ اسے جس جگہ سے محبت ہو اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا زیادہ وقت وہاں گذرے۔ مومن مسجد میں آ کر اس طرح پر سکون ہو جاتا ہے جیسے بچہ ماں کی گود میں آ کر پر سکون ہو جاتا ہے۔
  • نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
    المومن فی المسجد کالسمک فی الماء
    (مومن مسجد میں ایسے ہی ہے جیسے مچھلی پانی میں)
    اردو زبان میں ماہی بے آب کا فقرہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ مچھلی پانی سے جدا ہو کر جس طرح تڑپتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جبکہ مچھلی ساری عمر پانی میں رہے تب بھی اس کا دل نہ بھرے۔ یہی حال مومن کا ہوتا ہے کہ وہ مسجد میں رہ کر پر سکون ہوتا ہے اور مسجد سے جدا ہو کر مضطرب ہوتا ہے۔ مومن با وضو ہو کر مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کا دل اس طرح خوش ہوتا ہے جس طرح دولہا اپنی بارات کے ساتھ خوش دلی سے چلتا ہے۔ دولہا کو اپنی زوجہ سے جسمانی ملاپ نصیب ہونے پر خوشی ہوتی ہے جبکہ مومن کو مسجد میں نماز ادا کر کے اپنے پروردگار سے روحانی ملاپ ہونے پر خوشی ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی علیہ السلام فرماتے تھے۔
    ارحنی یا بلال
    (اے بلال ! ہمیں راحت دو)
    اور نماز کے متعلق فرمایا کرتے
    قرۃ عینی فی الصلوۃ
    (میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے)
    دنیا داری کا نفسانی تعلق رکھنے والے عشاق کے لیے محبوب کی گلی سے گزرنا اس کے مکان کی طرف دیکھنا اور اس کے مکان کے گرد چکر لگانا باعث طمانیت ہوتا ہے۔
    مومن بھی مسجد کی طرف چلنا اور مسجد میں وقت گزارنے کو دلی سکون کا باعث محسوس کرتے ہیں۔
    سنا ہے مجنوں نے لیلیٰ کی محبت میں یہ اشعار کہے۔
    اطوف علی الجدار دیار لیلیٰ
    اقبل ذالجدار و ذالجدارا
    و ما حب الدیار شغفن قلبی
    و لکن حب من سکن الدیارا
    (میں لیلیٰ کے گھر کی دیواروں کا طواف کرتا ہوں کبھی اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں کبھی اس دیوار کو۔ اور در اصل ان گھروں کی محبت نہیں میرے دل پر چھا گئی بلکہ اس مکین کی محبت ہے جو اس مکان میں رہتا ہے)
    مومن بھی بار بار مسجد کی طرف چل کے جانے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔
  • نبی علیہ السلام نے اندھیرے میں چل کر مسجد میں جانے والوں کو خوشخبری بھی سنائی۔
    عن سہیل بن سعد الساعدیؓ قال قال رسول اللہ ﷺ بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیٰمۃ (ابن ماجہ)
    (حضرت سہیل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا 'اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چلنے والوں کو قیامت کے دن کے کامل نور کی خوش خبری دے دو')
  • ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سات آدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوگا۔ اٹکا ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہو مسجد سے متعلقہ امور کے بارے میں فکر مند رہتا ہو اور اس کا بیشتر وقت یا تو مسجد کے اندر گزرتا ہو یا مسجد سے متعلقہ کاموں میں گزرتا ہو۔
  • ایک حدیث پاک میں وارد ہے کہ مشقت کے وقت وضو کرنا اور مسجد کی طرف قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں (مسجد میں) بیٹھے رہنا گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ (جامع الصغیر)۔
  • حضرت ابو سعیدؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص کو مسجد کا عادی دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو۔
  • ایک حدیث میں ہے کہ مسجدیں جنت کے باغ ہیں۔ (جامع الصغیر)
  • ایک حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے پڑوسی کہاں ہیں ؟ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ کے پڑوسی کون ہیں ؟ ارشاد ہو گا کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے۔
  • ایک حدیث میں ہے کہ جب آسمان سے کوئی بلا نازل ہوتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹا لی جاتی ہے۔ (جامع الصغیر)
  • حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں اور گھر آنے والے کا اکرام ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ پر ان کا اکرام ضروری ہے جو مسجدوں میں حاضر ہونے والے ہیں۔
  • حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں کسی جگہ عذاب بھیجنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر وہاں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے واسطے آپس میں محبت کرتے ہیں ، اخیر راتوں میں استغفار کرتے ہیں تو عذاب کو موقوف کر دیتا ہوں۔ (در منشور)
  • حضرت ابو الدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کو خط لکھا:
    'اکثر اوقات مسجد میں گزارا کرو۔ میں نے نبی علیہ السلام سے سنا ہے کہ مسجد متقی کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا عہد فرما لیا ہے کہ جو شخص اکثر اوقات مسجد میں رہتا ہے اس پر رحمت کروں گا۔ اس کو راحت دوں گا۔ قیامت میں پل صراط کا راستہ آسان کروں گا اور اپنی رضا نصیب کروں گا۔
  • بعض مشائخ سے منقول ہے کہ روز محشر نمازی لوگ پل صراط سے اپنی مسجدوں میں اس طرح سوار ہو کر گزریں گے جس طرح دنیا میں لوگ بحری جہازوں پر سوار ہو کر سمندروں میں سے گزر جاتے ہیں۔
  • ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔ اس بات کو بتانے کے لیے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اتنا قریب بلایا کہ مجھے اتنا قرب پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا۔
  • مشائخ عظام سے منقول ہے کہ:
    'اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے خوش ہوتے ہیں تو اسے مسجد کا منتظم بنا دیتے ہیں پس وہ ہر وقت مسجد کی خدمت میں اور اس کے کاموں کو سمیٹنے میں مشغول رہتا ہے۔'
    آج کل کے متولی حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ مسجد کے کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کریں۔ نام و نمود اور مخلوق کی واہ واہ پر نظر نہ ڈالیں۔ یہ طمع دل میں نہ رکھیں کہ لوگ ہماری تعریف کریں گے۔ مسجد کے ائمہ و خطباء کا اکرام کریں انہیں اپنی رعایا نہ سمجھیں ۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احسان مند رہیں کہ اس نے اپنے گھر کی خدمت کے لیے چن لیا ہے۔
    منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی
    منت ازوشناس کہ در خدمت گزاشت
    (اے مخاطب تو احسان نہ جتلا کہ بادشاہ کی خدمت کر رہا ہے۔ (اس کی خدمت کرنے والے لاکھوں) یہ بادشاہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں خدمت کے لیے قبول کر لیا)
  • ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ ایک مسجد کے متولی کا حساب ہو رہا ہے۔ متولی سخت پریشانی کے عالم میں ہے۔ اتنے میں ایک مسجد کو سامنے پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ شخص ہر وقت اس مسجد کی خدمت میں لگا رہتا تھا۔ فرشتوں نے مسجدکی مٹی سے مٹھی بھر بھر کے میزان میں ڈالنی شروع کی۔ ہر مٹھی مٹی میزان میں جا کر احد پہاڑ کی مانند بن جاتی۔ دیکھتے دیکھتے متولی کی نیکیوں کا پلڑا جھک گیا اور اسے جنت بھیج دیا گیا۔
  • علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص مسجد میں جھاڑو دیتا ہے تو اڑنے والے گردو غبار کاایک ایک ذرہ جنتی حور کا حق مہر بن جاتاہے۔ ۱۸۔ علماء نے لکھا ہے کہ جس نوجوان کی شادی میں رکاوٹ ہو۔ اگر وہ مسجد میں جھاڑو دے اور خدمت کرے تو اس خدمت کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو خادمہ عطا فرما دیتے ہیں۔
  • مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنا حرام ہے۔ نیکیاں برباد گناہ لازم والا معاملہ ہے۔ حضرت سعید بن مسیبؓ نے فرمایا کہ ' جو شخص مسجد میں بیٹھے وہ اپنے رب کے ساتھ ہم نشینی کرتا ہے اس کے حق میں یہی مناسب ہے کہ خیر کے علاوہ اور کوئی بات نہ کہے۔'
  • نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آخر زمانے میں میری امت میں سے کچھ لوگ آئیں گے اور مسجدوں میں آ کر حلقہ بنا کر بیٹھیں گے، ان کا ذکر دنیا اور دنیا کی محبت ہو گی، تم ان کے پاس مت بیٹھنا کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے کچھ مطلب نہیں۔
  • جو شخص نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھے یا اعتکاف کی نیت سے بیٹھے تو اسے ہر سانس پر ۱۰ نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔
  • مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن پاک کی آیت کے مطابق جو شخص اذان سے پہلے نماز با جماعت کے لیے مسجد میں آ جائے وہ سابق بالخیرات میں سے ہے۔ جو اذان سن کر مسجد میں آ جائے وہ مقتصد لوگوں میں سے ہے۔ جو اذان کی آواز سن کر بھی مسجد میں نہ آئے وہ ظالم لنفسہ میں سے ہے۔
  • ایک حدیث میں ہے کہ
    من الف المسجد الفہ اللہ تعالیٰ (طبرانی)
    (جو شخص مسجد سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں)
  • علامہ زمحشریؒ حج بیت اللہ کے لیے گئے تو مسجد حرام میں ڈیرے لگا لیے۔ جب دیکھو مسجد میں موجود۔ جب دیکھو مسجد میں موجود۔ لوگوں نے ان کا نام جار اللہ (اللہ کا پڑوسی ) رکھ دیا۔ محمد ابن سیرینؒ کی بہن حفصہ بن سیرین نے گھر میں مسجد بنائی ہوئی تھی۔ انہوں نے زندگی کے ۳۵ سال اس حال میں گزارے کہ قضائے حاجت کے لیے مسجد سے نکلتیں اور بقیہ وقت اعتکاف کی نیت سے مسجد میں گزار دیتیں۔
  • حدیث پاک میں ہے من بنیٰ للہ مسجد ابنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ
    (جو اللہ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا)

جاری ہے