نماز اردو زبان کا لفظ ہے اور شریعت اسلامی میں اسکا مطلب ہے ایک خاص ترتیب سے اللہ تعالٰی کی عبادت کرنا۔ نماز کو عربی میں صلٰوۃ کہتے ہیں۔ اسکے حروف اصلی تین ہیں (ص، ل، الف) عربی لغت کے اعتبار سے نماز کےمعنی ہیں دعا کرنا، تعظیم کرنا، آگ جلانا، آگ میں جانا، آگ پر گرم کر کے ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنا وغیرہ۔
عربی زبان کایہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ کے لغوی معنی اور شرع معنی میں مناسبت ضرور ہونی چاہئے۔ پس جس قدر صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں وہ شرعی اعتبار سے صلوٰۃ کے عمل میں موجود ہیں مثلًا
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمنْکَرِ (عنکبوت:۸۵)
(بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے)
شریعت میں نمازی کے عمل کو دوسرے عملوں کی نسبت یہ خاص امتیازی شان حاصل ہے کہ تمام احکام زمین پر فرض ہوئے۔ نماز معراج شریف کی رات میں عرش سے اوپر جا کر فرض ہوئی۔ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ کو پاس بلا کر خاص الخاص حضوری میں آمنے سامنے مقام تدلٰی پر فرض کی۔ جس قدر اہتمام اس فرض کا ہوا بقیہ فرائض کا اہتمام اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّلوٰۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ
(نماز دین کا ستون ہے)
امام سیوطیؒ نے در منثور میں نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معراج کی شب بیت المقدس میں مسجد اقصٰی کے دروازے پر پہنچے تو وہاں ایک جگہ حوران جنت کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ حوروں نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ حوران جنت نے عرض کیا نَحْنُ خَیْرَاتٌ حَسَانٌ نِسَاءُ قَوْمٍ اَبْرَارٍ یا رسول اللہ ﷺ ہم نیک لوگوں کی بیبیاں حوران جنت ہیں۔ آج آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے آئی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ وہاں سے آگے چلے جب مسجد اقصٰی کے اندر پہنچے تو ساری مسجد کو نمازیوں سے بھرا ہوا پایا۔ ایک دراز قامت خوبصورت بزرگ کو نماز میں مشغول دیکھ کر پوچھا کہ جبرئیلًؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا، یہ آپ ﷺ کے جد امجد حضرت آدمؑ ہیں۔ ایک اور نورانی شکل و صورت والے بزرگ کو نماز پڑھتے دیکھا جن کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ پوچھا، جبرئیلؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ ایک اور بزرگ کو دیکھا جنکی رنگت سانولی سلونی بڑی من موہنی تھی۔ چہرے پر جلال کے آثار نمایاں تھے۔ پوچھا کہ جبرئیلؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ اللہ تعالٰی کے عاشق صادق لاڈلے پیغمبر حضرت موسٰیؑ ہیں۔ الغرض نبی اکرم ﷺ کے وہاں پہنچتے ہی حضرت جبرئیلؑ نے اذان کہی، آسمان کے دروازے کھلے، فرشتے قطار اندر قطار آسمان سے نازل ہوئے۔ جب ساری مسجد اندر باہر سے بھر گئ تو ملائکہ ہوا میں صف بستہ ہوئے حتٰی کہ زمین و آسمان کا خلا پر ہو گیا۔ اتنے میں حضرت جبرئیلؑ نے اقامت کہی تو صف بندی ہو گئ۔ امام کا مصلّٰی خالی تھا۔ حضرت جبرئیلؑ نے امام الاولین والآخرین سید الانس والملائکہ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر عرض کیا، اللہ کی قسم! مخلوق خدا میں آپ ﷺ سے افضل اور کوئی نہیں، آپ ﷺ امامت فرمائیے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ سلام پھیرنے کے بعد جبرئیلؑ نے عرض کیا، اے محبوب کل جہاں ﷺ! آپ ﷺ کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مرسلین اور ساتوں آسمانوں کے خاص خاص فرشتوں نے نماز ادا کی ہے۔ نماز سے فراغت پر آپﷺ کو رف رف کی سواری پیش کی گئ۔ آپ ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ ملائکہ کے قبلہ بیت المعمور کے پاس پہنچ کر آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ فرشتوں نے اقتدا کی ۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے دو طرح کے لوگ دیکھے، ایک گورے چٹے سفید رنگ کے جن کے لباس بھی سفید تھے، دوسرے وہ جنکے چہرے سیاہ اور کپڑے میلے تھے۔ نبی علیہ السلام نے پوچھا جبرئیلؑ! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا، روشن چہروں والے آپ ﷺ کی امت کے نیکوکار ہیں اور سیاہ چہروں والے آپ ﷺ کی امت کے گنہگار ہیں۔ آپ ﷺ نے وہیں پر گنہگاروں کے لئے شفاعت فرمائی جو قبول ہوئی۔ یہاں سے چل کر سدرۃ المنتہٰی پر پہنچے۔ وہاں جبرئیلؑ نے عرض کیا، آپ ﷺ آگے تشریف لے جائیے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا (بقول شیخ سعدی)
چو در دوستی مخلصم یافتی
عنانم ز صحبت چرا تافتی
اگر تم مجھ سے سچی محبت رکھتے ہو تو پھر ساتھ کیوں چھوڑ تے ہو)
جبرئیلؑ نے عرض کیا
اگر یک سر موئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوز پرم
نبی علیہ السلام کو یہاں سے اوپر کی طرف عروج نصیب ہوا حتٰی کہ آپ ﷺ صاف سیدھے میدان یعنی خطیر القدس پہنچے۔ وہاں آپ ﷺ پر تجلی کا خاصہ ورود ہوا۔
آپ ﷺ نے فورًا فرمایا:
اَلتَّحِیَّاتُ لِلہِ وَ الصَّلْوَاتُ وَ الطَّیِّبَاتُ
(تمام قولی عبادتیں اور فعلی عبادتیں اور مالی عبادتیں اللہ ہی کیلئے ہیں)
اللہ رب العزت کی طرف سے ارشاد ہوا۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَ حْمَۃُ اللہِ وَ بَرَ کَا تُہ
(اے نبی آپ پر سلامتی ہو اور اللہ تعالٰی کی رحمت اور برکتیں ہوں)
نبی علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی عنایت و مہربانی کو دیکھا تو گنہگار امت یا دآئی فرمایا:
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ
(سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر)
اللہ رب العزت کو یہ ہم کلامی اتنی پسند آئی کہ اسے یادگار بنا دیا۔ ارشاد ہوا، اے محبوب ﷺ ہم نے آپ ﷺ کی امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔ نبی علیہ السلام اس وقت محو تجلیات الٰہی تھے۔ آپ ﷺ پر پانچ سو نمازیں بھی فرض کر دی جاتیں تو آپ ﷺ قبول فرما لیتے۔ کیا نہیں دیکھا کہ دنیا کا فانی عشق فانی محبوب اور فانی وصال کی حالت ہو ش اڑا دیتی ہے۔ عورت جیسی نازک چیز دیدار یوسفؑ میں ایسی غافل ہوئی کہ بجائے ترکاری کے اپنی انگلیاں کاٹ لیں، فرہاد نے شیریں کے دیدار کے بدلے کوہستان کھود مارے، ادھم فقیر نے شاہ بلخ کی لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھ کر سمندر خالی کرنے پر کمر باندھ لی۔ الغرض مشکل ترین بوجھ کو سر پر اٹھا لینا دیدار محبوب کے وقت آسان ہوتا ہے۔ اللہ اکبر۔ حسن مولٰی کے سامنے عشق لیلٰی کی کیا حیثیت ہے؟
جب نبی کریم ﷺ دیدار الٰہی میں مگن تھے آپ ﷺ کیلئے پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم بہت آسان تھا۔ آپ ﷺ خوشی خوشی واپس تشریف لے آئے۔ راستے میں حضرت موسٰیؑ نے توجہ دلائی کہ اے محبوب کل جہاں ﷺ! آپ ﷺ محو تجلی تھے آپ ﷺ کی ساری امت تو محو تجلی نہ ہو گی۔ میری امت کیلئے دو نمازیں پڑھنی مشکل تھیں آپ ﷺ بارگاہ احدیت میں پھر حاضری دیجئے اور آسانی کیلئے فرمائش کیجئے۔ چنانچہ چند بار اوپر نیچے آنے جانے کا معاملہ پیش آیا۔ صرف پانچ نمازیں فرض رہ گئیں۔ لیکن پروردگار عالم نے فرمایا،
مَا یُبَدِّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَ مَا اَنَا بِظَلَّا مٍ لِلْعَبِیْدِ (سورۃ ق:۲۹)
(میرے ہاں فیصلے تبدیل نہیں کئے جاتے اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں)
آپ ﷺ کی امت پانچ نمازیں پڑھے گی مگر انکو پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا۔ اصول سامنے آ گیا
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشَرَ اَمْثَا لُھَا (سورۃ انعام: ۱۶۰)
(جس نے ایک نیکی کی تو اس کیلئے اجر دس گنا ہے)
پس پانچ نمازوں کا حکم قائم اور محکم ہو گیا۔ فالحمد للہ رب العالمین۔
حافظ بن حجرؒ نے منبہات میں حضرت عثمان غنیؓ سے روایت کی ہے کہ جو شخص اوقات کی پابندی کے ساتھ نماز کی محافظت کرے اللہ تعالٰی نو چیزوں سے اس کا اکرام فرماتے ہیں۔
منبہات ابن حجر میں ایک دوسری روایت ہے۔
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس خوبیاں ہیں۔
لہذا جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا۔ جس نے اسے چھوڑا اس نے دین کو گرایا۔
فقیہ ابو اللیث سمر قندیؒ نے تنبیہ الغافلین میں حدیث نقل کی ہے کہ:
حافظ ابن حجرؒ نے منبہات میں ایک اور حدیث نقل کی ہے۔
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تین چیزیں محبوب ہیں
سیدنا صدیق اکبرؓ یہ سن کر تڑپ اٹھے اور عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
حضرت عثمان غنیؓ نے یہ سن کر کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
حضرت علی المرتضٰیؓ نے یہ سن کر کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
اتنے میں جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
جبرئیلؑ نے بتایا کہ اللہ رب العزت کو بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
حضرت شفیق بلخیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں میں پایا۔
امام ابن سیرینؒ تعبیر الرویاء میں لکھتے ہیں کہ جس نے خواب دیکھا کہ اس نے